واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

حضرت خواجہ ابو محمدچشتی

رحمتہ اللہ علیہ

 

   آپ کا اسم گرامی حضرت خواجہ ابو محمد رحمتہ اللہ علیہ  بن ابو احمد ابدال چشتی رحمتہ اللہ علیہ اور لقب نصح الدین تھا۔آپ کی ولادت باسعادت یکم محرم الحرام ۳۳۱ ہجری کو چشت میں ہوئی۔۔ آپ مادر زاد ولی تھے ۔ خواجہ ابو احمد ابدال چشتی رحمتہ اللہ علیہ کو رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فرزند ارجمند کی بشارت دی تھی۔ آپ نے فرمایا تھا کہ اے ابو احمد رحمتہ اللہ علیہ خدا تمہیں ایک بیٹا دے گا جس کا نام میرے نام پر محمد رکھنا۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

                                                                    بیرونی حملہ آوروں کی وجہ سے یہ مزارات  اب  کھنڈرات میں تبد یل ہو چکے ہیں

 آپ خواجہ ابو احمد ابدال رحمتہ اللہ علیہ چشتی کے فرزند ارجمند، مرید اور خلیفہ تھے چوبیس سال کی عمر میں آپ کے والد ماجد کا انتقال ہوا تو آپ ان کے مصلیٰ پر جلوہ افروز ہوئے کئی بار کنویں میں لٹک کر نماز معکوس ادا کرتے۔ سات دن بعد ایک کجھور اور پانی کے ایک گھونٹ سے افطار کرتے۔آپ کے ظاہری و باطنی علوم کے استاد حضرت خضر علیہ السلام تھے۔

ایک دن خواجہ ابو احمد چشتی رحمتہ اللہ علیہ مجلس سماع میں بیٹھے ہوئے تھےکہ اتفاقاً وہاں حضرت خواجہ ابو محمد رحمتہ اللہ علیہ بھی تشریف لے آئے۔ نعت سنتے ہی رکت طاری ہوگئی اور سات دن تک بے خود پڑے رہے۔ صرف نماز کے وقت ہوش میں آتے اور پھر بے ہوش ہوجاتے۔ آٹھویں دن آپ رحمتہ اللہ علیہ  کے والد حضرت خواجہ ابواحمدچشتی رحمتہ اللہ علیہ  نے سماع موقوف فرمایا اور خواجہ ابومحمد رحمتہ اللہ علیہ  کے سینے پر ہاتھ پھیرا وہ ہوش میں آگئے اور آنکھیں کھول دیں اور آسمان کی طرف منہ کرکے کہنے لگے پھر پڑھو۔ عالم غیب سے نعت کی آواز آنی شروع ہوئی۔ یہ ایسے اشعار تھے جو بشمول حاضرین کے کسی نے نہ سنے تھے۔ خواجہ حاضرین کے ساتھ پھر وجد میں آگئے اور تین روز تک بےخود پڑے رہے۔

ایک دن حضرت خواجہ ابو محمد  رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی بہن کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا کہ اے عزیزہ  تقدیر میں لکھا ہوا ہے کہ تمہارے بطن سے ایک ولی اللہ پیدا ہو گا  جو قطب الاقطاب بنے گا۔آپ بہن خود ایک ولیہ تھیں لیکن یہ بات سننے کے باوجود شادی سے انکار کرتی رہیں۔اس وقت آپ کی ہمشیرہ کی عمر چالیس سال تھی اور  وہ صرف اللہ کی یاد میں زندگی گذارنا چاہتیں تھیں۔اسی رات اس نیک بی بی نے خواب میں اپنے والد حضرت خواجہ ابواحمدچشتی رحمتہ اللہ علیہ  کو دیکھاجو کہ فرمارہے ہیں کہ ایک سید زادہ محمد سمعان ہے وہ نیکی اور تقوی میں مشہور ہے اور وہ تمہارے مقدر میں لکھا ہوا ہے۔ دوسرے روز بھی ایسا ہی خواب حضرت ابواحمد چشتی رحمتہ اللہ علیہ  کو آیا جس کے بعد انہوں نے کسی آدمی کو بلایا اور اسے کہا کہ اس شہر میں کوئی سید محمدسمعان رہتا ہے اسے ڈھونڈ کر لائیں۔ جب سید محمد سمعان کو لایاگیا تو وہی تھے جن کو خواب میں دیکھا تھا۔ چنانچہ آپ کا نکاح اس بی بی سے پڑھادیاگیا۔ جس کے بعد خواجہ حضرت ابویوسف رحمتہ اللہ علیہ  پیداہوئے۔

حضرت خواجہ ابو محمد رحمتہ اللہ علیہ کا ایک خدمت گزار تھا۔ اس کا نام استاد مروان  رحمتہ اللہ علیہ تھا۔ وہ کئی سال تک آپ رحمتہ اللہ علیہ  کی خدمت میں رہا اور کامل اعتقاد کے ساتھ خدمت بجالاتا رہاجس پر حضرت خواجہ ابو محمد  رحمتہ اللہ علیہ نے اسے خرقہ خالفت سے نوازہ اور حکم دیا کہ اپنے ملک چلاجا ۔خواجہ استاد مروان رحمتہ اللہ علیہ  نےروتےہوئے حضرت خواجہ ابو محمد  رحمتہ اللہ علیہ سے کہا کہ جب تک میرے جسم میں جان ہے میں آپ رحمتہ اللہ علیہ  کی خدمت سے علیحدہ نہیں رہوں گا ۔ حضرت خواجہ ابو محمد  رحمتہ اللہ علیہ نے اس کی گریہ زاری اور بےقراری دیکھی تو فرمایا کہ تم جہاں کہیں بھی رہوگے ۔ جب بھی مجھے دیکھنے کی آرزو کروگے میں تمہارے سامنے موجود ہوں گا اور تم مجھ سے ملاقات کرلیا کرنا۔ اس بات سے ان کی تسلی ہوگئی اور وہ وہاں سے رخصت ہوگئے۔ وہ ساری زندگی جب چاہتے حضرت خواجہ ابو محمد رحمتہ اللہ علیہ سے ملاقات کرلیا کرتے تھے۔

آپ کے تین خلفاء تھے ایک خواجہ ابو یوسف رحمتہ اللہ علیہ  دوسرے خواجہ محمد کاکو رحمتہ اللہ علیہ  اور تیسرے خواجہ استاد مردان رحمتہ اللہ علیہ  یہ تینوں حضرات آپ کی وفات کے بعد مسند ہدایت و ارشاد پر بیٹھے۔

 آپ سیرالا قطاب کے مصنف کےمطابق چودہ ربیع الاول۴۱۱ ہجری کو اس دار فانی سے رخصت ہوئے جبکہ شہزادہ دارا شکوہ قادری نے سفینتہ الاولیاء میں لکھا ہے کہ آپ  یکم ماہ رجب ۴۱۱ ہجری کو اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔